وہم کی حد تک یا حد درجہ تک صفائی اور ستھرائی کے متوالے بھی حساسیت یعنی الرجی کا بڑی آسانی سے شکار ہوسکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ لباس اور جسم کی صفائی کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ دن میں کئی بار صابن مل مل کر جسم کو صاف کرتے ہیں
گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہماری آبادی کی اکثریت بعض چیزوں کے متعلق خاصی حساس اور الرجک ہوتی جارہی ہے۔ اس میں بلیاں‘ کتے‘ گردوغبار‘ پھولوں سے اڑنے والا زیرہ‘ مختلف قسم کے کیمکلز اور ادویات شامل ہیں۔ بعض لوگ مونگ پھلی‘ اخروٹ اور اس قسم کے دوسرے نٹس سے بھی الرجک ہوتے جارہے ہیں۔
ہم اس دور میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوتے جارہے ہیں یقینا ہمارے ہائی جین کے معیار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور بیماریاں آناً فاناً ہم پر حملہ آور ہوتی جارہی ہیں۔ لازمی بات ہے کہ ہمارے جسم میں بیماریوں کے دفاع کی قوت میں کمی واقع ہورہی ہے کہ جونہی کسی نے کسی کے پاس چھینک ماری تو ہم بھی نزلہ و زکام میں مبتلا ہوگئے اور پھر دھڑا دھڑ ادویات کا استعمال شروع کردیا جن سے جسم کے اندر بیماریوں کا دفاع کرنے والی قوت اور بھی کمزور ہوجاتی ہے اور ہم بار بار بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہورہا ہے اور اس کا کوئی مستقل ازالہ ہونا چاہیے کہ آئے روز کی بیماریوں سے چھٹکارا مل سکے۔
الرجی ایک طرح کی جسمانی بے ترتیبی کا نام ہے جو بے ضرر خوردنی اشیاءسے لاحق ہوتی ہے جن سے بعض لوگ حساس ہوتے ہیں‘ ان اشیاءمیں سونگھنے والی‘ انجکشن‘ جسم میں جانے والی یا چھونے والی اشیاءبھی شامل ہوتی ہیں۔
انسان کے جسم میں موجود فطری امیون سسٹم ان بے ضرر اشیاءکو بعض اوقات قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے اور اس طرح حساسیت یا الرجی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے یہ صورت حال بالکل اسی طرح کی ہوتی ہے جو بیکٹیریا یا وائرس سے ہوا کرتی ہے۔ انسانی جسم اس کے دفاع کیلئے ایک دفاعی مادہ خارج یا پیدا کرتا ہے‘ جسے اینٹی باڈی کا نام دیا جاسکتا ہے اسے طبی اصطلاح میں امینوگلوبولن ای بھی کہتے ہیں اور پھر اس سے ہی مختلف قسم کی الرجی کی علامات ظاہر ہوتی ہے۔ انسان کو لاحق ہونے والی الرجی میں سے عام قسم وہ ہے جو بخار‘ دمے اور ایگزیما کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ بخار الرجی کی ایک صورت ہے جو پچھلے بیس برسوں کے دوران دوگنی مضرت کے ساتھ ظاہر ہورہی ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ دمہ کی تکلیف لوگوں میں اپنے معراج کو پہنچ گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سات بچوں میں سے ایک دمے کی صورتحال سے دوچار ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ شکایت پچھلے دس سالوں میں دوگنی ہوگئی ہے۔
ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماحول کی مرہون منت ہے جب ہم ماحولیاتی فیکٹریز کا ذکر کرتے ہیں تو اسے لوگ فضائی آلودگی سے تعبیر کرتے ہیں تاہم ایسے شواہد موجود ہیں کہ آلودگی اس کی بنیادی وجوہات میں شمار نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ چار دیواری یا گھر کے اندر کے ماحول سے بھی منسلک ہے۔
صرف فضائی آلودگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ایسے لوگ جو سنٹرل ایئرکنڈیشنڈاورپینٹ کیے گئے شیشوں والے دروازوں اور کھڑکیوں والے گھروں میں رہائش رکھتے ہیں ان کے گھروں میں کارپٹس بچھے ہوتے ہیں اور کھڑکیوں کے آگے نرم وگداز پردے لٹک رہے ہوتے ہیں یہ سب چیزیں گردوغبار کے ذرات کو سمیٹنے کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی اشیاءانسان کو الرجی میں مبتلا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح جو لوگ گھروں میں کتے‘ بلیاں یا خرگوش پالتے ہیں وہ خود اپنے لیے الرجی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں انسانی جسم بآسانی ان اشیاءمیں چھپے گردوغبار کے ذرات سانس کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کرتا ہے اور اس طرح الرجک ری ایکشن پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین کے تجزیے کے مطابق ایسے افراد جو کم از کم ایک سال تک ایسے ماحول میں گزربسر کررہے ہوں ان کے بچوں کو لازماً دمہ کی تکلیف لاحق ہوسکتی ہے جبکہ وہ خود بھی دمے کے مریض بن جاتے ہیں۔
وہم کی حد تک یا حد درجہ تک صفائی اور ستھرائی کے متوالے بھی حساسیت یعنی الرجی کا بڑی آسانی سے شکار ہوسکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ لباس اور جسم کی صفائی کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ دن میں کئی بار صابن مل مل کر جسم کو صاف کرتے ہیں۔ ذرا سا داغ کپڑے پر برداشت نہیں کرتے اس قسم کے لوگوں کے جسم میں بیماریوں یا جراثیم سے بچنے کیلئے قوت مدافعت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگ بھی جلد جلدی بیماریوں کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں جتنا وہ بیماریوں اور الرجی سے بچنے کیلئے گھر کی ہر چیز کو جراثیم سے پاک بناتے ہیں جن کیمیکلز کے ذریعے وہ گھر اور اس میں موجود اشیاءکو صاف کرتے ہیں ان کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ انسانی جسم کے اندر بیکٹیریا سے دفاع کرنے کا نظام ہی ڈیویلپ نہیں ہونے دیتے ایسے افراد کے بچے جب بھی گھر سے باہر نکلتے ہیں تو بیکٹیریا ان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں لہٰذا وہم کی حد تک صفائی رکھنا بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے‘ گھر میں تو وہ یقینا الرجی سے بچے رہیں گے مگر باہر نکلتے ہی وہ جراثیم کی زد میں آسکتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ صاف شفاف گھروں میں رہنے والے افراد کے بچے عموماً نزلہ و زکام اور دیگر تکالیف میں زیادہ مبتلا ہوتے دیکھے گئے ہیں بہ نسبت عام گھروں میں رہنے والوں کے۔
دیہات میں رہنے والے افراد کے بچے گھر کے صحن میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتے رہتے ہیں بعض مٹی کھا بھی لیتے ہیں مگر بہت کم بیمار ہوتے ہیں اس کے مقابلے میں شہری بچے کو ایسی جگہ لتھڑنے کا موقع دیا جائے تو وہ یقینا بیمار ہوجائے گا جبکہ دیہاتی بچے صحت مند توانا اور چاق و چوبند رہیں گے کیونکہ ان کے اندر جراثیم سے لڑنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ جہاں بھی ہم فطرت سے ہٹ کر کوئی کام کریں گے تو جسم کے اندر قوت مدافعت کمزور ہوکر انسان کو دائمی مریض بناسکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہی بچے شہری بچوں کے مقابلہ میں جسمانی طور پر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔
بیماریوں اور الرجی سے محفوظ رہنے کیلئے کچھ ہدایات درج کی جاتی ہیں:۔
زیادہ صفائی پسند مت بنئے اور نہ جراثیم کش ادویہ کا زیادہ استعمال کریں٭ وہم چھوڑیں فطرت اور فطرت کے مطابق زندگی گزارنا سیکھیں٭کپڑوں کی بھی ایک حد تک صفائی رکھیں اس طرح آپ کے جسم کا امیون سسٹم فعال رہے گا اور آپ بیماریوں سے بچے رہیں گے بصورت دیگر آپ بار بار بیماریوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔٭ ہمیشہ تازہ پھل اور سبزیاں استعمال کریں۔ یہ جراثیم کے حملے سے دفاع کی صلاحیت آپ کے جسم میں بڑھائیں گے نیز آپ کا امیون سسٹم بھی بیدار رہے گا اور آپ صحت مند و توانا رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 216
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں